بھارت: جنونی ہندوؤں کا مسلمان بزرگ پر تشدد، سور کا گوشت کھانے پر مجبور کردیا

نئی دہلی: (پاکستان فوکس آن لائن) بھارتی ریاست آسام میں انتہا پسندوں نے بزرگ مسلمان پر گائے کا گوشت فروخت کرنے کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا، مودی کے غنڈوں نے ناپاک جانور کا گوشت کھانے پر بھی مجبور کیا۔بھارت کی ریاست آسام میں نفرت اگلتے جنونی ہندوؤں نے ایک اور مسلمان پر گائے کا گوشت فروخت کرنے کا الزام لگا کر بری طرح تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور سور کا گوشت کھانے پر مجبور کردیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم نے ایک مسلمان بزرگ 68 سالہ شوکت علی کو گھیر رکھا ہے جن کے کپڑے زدوکوب کرنے کے باعث کیچڑ میں لت پت اور پھٹ چکے ہیں۔
Another glimpse of muslims in india.
man identified as Shaukat Ali was attacked by a mob for allegedly selling beef, according to Police. pic.twitter.com/BTdF3IHRL1— Sobia shahid (@bia_siddiqui) April 9, 2019
بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق اسی واقعے کی دوسری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ تنہا شخص کو گھیر کر انتہا پسند ہندوؤں نے ایک پیکٹ میں سے سور کا گوشت نکال کر انہیں وہ گوشت کھانے پر مجبور کیا۔ویڈیو میں جنونی افراد بزرگ شخص سے ان کی شناخت ثابت کرنے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔
Mob thrashes man in Biswanath Chariali; forced to eat Pork.
Hope @assampolice
take strict action against this culprits. @sarbanandsonwal govt should stop this..#Assam#NYAY pic.twitter.com/naUnjF7yzu— Hafeez Ur Rahman🇮🇳 (@Haafeez_ur) April 8, 2019
واضح رہے کہ بھارتی ریاست آسام میں گائے کے گوشت پر پابندی نہیں ہے اور آسام کے قانون کے مطابق 14 سال کی عمر سے زائد مویشی کو کاٹنے کی اجازت ہے جس کے لیے جانور کی صحت سے متعلق سرٹیکفیکیٹ لینا ضروری ہے۔مقامی پولیس کے مطابق شوکت ایک کاروباری شخص ہیں اور گزشتہ 35 سال سے اس علاقے میں ہوٹل چلا رہے ہیں ہجوم نے ان پر ہر ہفتے لگنے والے بازاروں میں گائے کا گوشت فروخت کرنے کا الزام لگایا۔تاہم صورتحال اس وقت خراب ہوگئی جب شرپسندوں نے شوکت علی کو بری طرح زدو کوب کرنے کے بعد انہیں سور کا گوشت کھانے پر مجبور کردیا۔رپورٹس کے مطابق شوکت علی زخمی ہونے کے باعث ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور ہجوم نے ہفتہ بازار کے مینیجر کمل تھاپا سے بھی بدتمیزی کی۔واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے مقامی پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے نامعلوم افراد کے خلاف 2 مقدمات درج کیے ہیں جس میں سے ایک کمل تھاپا جب کے دوسرا مقدمہ شوکت علی کے اہلِ خانہ نے درج کروایا۔تاہم پولیس نے اس واقعے کو مذہب کی بنیاد پر تشدد قرار دینے سے انکار کیا۔دوسری جانب بھارتی مسلمان رہنما اویس الدین اویسی نے واقعے پر سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ بات غیر متعلقہ ہے کہ آسام میں گائے کا گوشت فروخت کرنا قانونی ہے بلکہ بھارت کے کسی بھی حصے میں بے گناہ شخص کو اسطرح الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنانا بھارت میں ہر جگہ غیر قانونی ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جو گزشتہ 5 سال کے عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں تشدد کے واقعات سامنے آنے پر بے حسی محسوس کرتے ہیں۔